جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ
ڈاکٹر حامد عقیق سرور
(سابق وفاقی ایڈیشنل سیکرٹری صنعت)
یہ مضمون پاکستانی کی موجودہ معاشی صورتحال اور حالات حاضرہ کو سمجھنے کے لئے انتیائی مفید ہے۔
استاد یوسفی نے کسی جگہ ہمارے ملک کے حالات پر یہ جملہ لکھا تھا کہ پاکستان کے حالات کو بہتر بنانا گویا جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ لینا ہے ۔ یہ اس آدمی کا تبصرہ تھا جو پاکستان بننے سے ٹوٹنے تک ملک کے معاشی حالات براہ راست ایک بینک میں اعلی عہدیدار کی حیثیت سے دیکھتا رہا اور ایک نامور اور حساس ادیب کے طور پر اس معاشرے کے سیاسی اور سماجی ارتقا (زوال) کو محسوس کرتا رہا ۔ بھٹو صاحب کی نیشلائزیشن کے وقت یوسفی اغلبن یونائیٹڈ بینک کے سربراہ تھے ۔ یہاں سے بے روزگار ہوکر آغا حسن عابدی کے ساتھ بی سی سی آئی چلے گئے اور اس کے کسی سکینڈل کی زد میں آئے بغیر 1990 کے آس پاس واپس پاکستان آگئے اور کچھ سال قبل اپنی وفات تک زیادہ تر کراچی میں مقیم رہے ۔ اردو ادب میں نثر میں مزاح نگار کی حیثیت میں نظر آنے والا یہ شخص دراصل ہر حوالے سے اردو ادب کا سب سے بڑا نثر نگار ہے۔ جملے کی بنت ، کاٹ اور اثر انگیزی میں کوئی نثر نگار ان کی پاوں کی گرد کو بھی نہیں پہنچتا اور اس میں جب ان کا وسیع مطالعہ ، عمیق مشاہدہ اور بے مثل تجزیہ بھی شامل کر لیں تو تمام اردو ادب میں شعر میں غالب اور نثر میں یوسفی کا کوئی ہمسر نہیں ۔ غالب تو پھر اپنی خانہ ساز اور دیگر غذائی اور سماجی مجبوریوں کے طفیل بادشاہوں اور انگریزوں کے قصیدے لکھتے رہے مگر یوسفی صاحب کو اللہ نے اس سے بھی بے نیاز رکھا ۔
تمہید بے حد طویل ہو گئی کہ یوسفی ہمارے روحانی استاد ، محبوب اور ممدوح ہیں۔ مگر بات پاکستان کے حالات کی ہے جو سدھرنے کی بجائے شاید اس کے قیام سے ہی رو بہ زوال ہیں ۔
پاکستان کے ہندوستان میں واپس ضم ہو جانے کا امکان نہرو ، گاندھی اور آزاد کے ہاں یقین کی حد تک موجود تھا ۔ اس کے بنے رہنے میں شاید کسی حد تک بین الاقوامی طاقتوں( امریکہ ، برطانیہ) کا بھی کچھ کردار رہا ہو گا کہ نہرو کے سوشلسٹ رحجانات کے ساتھ روس اور چین کے کمیونسٹ اور سوشلسٹ ایجنڈا کو روکنے کے لئے انہیں ایسے ملکوں کی ضرورت تھی ( اسی سے ملتا جلتا کام جنوبی کوریا اور جنوبی ویتنام سے بھی لیا جا رہا تھا) ۔ لیاقت علی خان کا امریکہ کے ساتھ ترجیحی تعلقات کا قیام اور پھر بعد میں ہمارا سیٹو اور سینٹو میں جانا انہی وجوہات کی طرف نشاندہی کرتا ہے ۔ پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کو واپس اکھنڈ بھارت میں شامل ہونے سے روکنے کی یہ کوشش ہمارے اکابر سیاستدانوں اور اہل حشم کی جانب سے سب سے سہل اور تن آسانی والی آپشن تھی جس کے طفیل ہم 1950 سے 1988 تک کا وقت گزار گئے۔ اس دوران ملنے والی بے شمار فوجی اور مالی امداد کو ہمارے مقتدر لوگوں نے ایسے ہی خرچ کیا جیسے رو بہ زوال مغلیہ حکومت کیا کرتی تھی ۔
پچاس کی دہائی میں ایک اچھے آئینی بندوبست سے انحراف ، من پسند امرا پر عنایات ، عام انتخابات سے فرار اور لیاقت علی خان ، غلام محمد اور اسکندر مرزا ( اور ان سب کے پیچھے ان کے چنیدہ وزیر دفاع کی طاقت ) کی مطلق العنانیت اور اپنے اقدامات کے consequences سے بے پروائی اس بات کی غماز ہے کہ آس زمانے کی سیاست ( اور اس کے بعد آنے والے تمام زمانوں کی سیاست ) صرف ذاتی اقتدار اور اختیار کی consolidation اور توسیع کی خواہش کے علاوہ کچھ نہیں رہی ۔ پاکستان کے دوام کے لئے بطور ایک anti socialist rentier state حاصل کی گئی بین الاقوامی امداد اور تعاون شاید ہمارے تمام برے قومی فیصلوں کی بنیادی اساس ہے۔ اس equation میں 60 کی دہائی کے آغاز میں بڑھی انڈیا چائنہ مخاصمت کہ نتیجے میں چین کی امداد بھی شامل کرلیں تو ان بے جا فیصلوں کا جواز اور بھی واضح ہو جاتا ہے ۔
اگر ہمیں اپنے دوام اور بقا کی جنگ اس بین الاقوامی امداد کے steroid کے بغیر لڑنا پڑتی تو شاید آج ہم ایک تن آسان ،امداد کے منتظر ، قرضوں کے متمنی ،صنعت اور حرفت سے نا آشنا اور محمد شاہ رنگیلا جیسے فیصلے کرنے والی قوم کی بجائے شاید تھوڑے سے غریب مگر ذمہ دار فیصلے کرنے والی خوددار قوم ہوتے۔
ہمارے حکمرانوں کے لایعنی اور سمجھ میں نہ آنے والے فیصلے اسی نہ لڑی جانے والی بقا کی جنگ کا شاخسانہ ہیں جو ہماری قوم کی اشرافیہ نے نہیں لڑی (بنگلہ دیش نے یہ جنگ خاص کر اکیسویں صدی میں لڑی اور اج ترقی اور وقار کی راہ پر گامزن ہے ) ۔
ذرا غور کیجئے کہ یہ بقا کی جنگ اگر ہم خود سے لڑتے تو مشرقی پاکستان کے سیاسی اور انلیکچوئل ایلیٹ کو معاشی، سماجی اور سیاسی فیصلوں میں اس برے طریقے سے نظر انداز کیا جاسکتا تھا؟ کیا ہزار میل کے فاصلے سے بٹے دو حصوں میں 1947 سے 1970 تک عام انتخابات کو avoid کیا جاسکتا تھا ؟ کیا حسین شہید سہروردی، جو متحدہ بنگال کا وزیراعلٰی رہ چکا تھا ( اور جس کی عوامی مقبولیت مسلم لیگ کے ووٹ بینک کی مرہون منت نہ تھی ) ایک فالج زدہ اور فاتر العقل گورنر جنرل کے فرمان سے وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کیا جا سکتا تھا؟
کیا ہمسائے میں نہرو کے اقدامات کے برخلاف landed elite کی انگریز حکومت کی چاپلوسی سے حاصل کردہ بے شمار رقبوں کو بغیر land reforms کے چھوڑا جا سکتا تھا ؟ کیا 2018 تک ملک میں قبائلی علاقے انگریز کے پولیٹیکل ایجنٹ کے انتظام سے چلائے جا سکتے تھے ؟ کیا بلوچستان کی صوبائی حیثیت 23 سال تک روکی جا سکتی تھی ؟ کیا لائسنس راج سے جنم لینے والی صنعتی ، بینکنگ اور تاجر اشرافیہ کو امیر سے امیر تر ہونے کی اجازت دی جاسکتی تھی ؟ کیا کسی کو مشرقی پاکستان کے ملک کا حصہ ہوتے ہوئے اور کراچی کی demography کو سمجھتے ہوئے پوٹھوہار کی ایک غیر آباد جگہ پر دارالحکومت بنانے کی اجازت دی جا سکتی تھی ؟( کراچی کی وسیع الاقوامی بنت ، اس کی بندرگاہ اور جغرافیائی حیثیت اس بات کی متقاضی تھی کہ یہ ہمیشہ ایک capital territory رہتا ۔ اگر کراچی اپنی بوہیمین اساس برقرار رکھتا اور اگر نیشلائزیشن نہ ہوتی تو دوبئی ، دوحہ ، ابوظہبی اور بنکاک آج بھی تیسرے درجے کے شہر ہوتے )
پھر بہت سے ایسے مسائل بھی تھے جو بنیادی سماجی اور جمہوری ارتقا کے عمل سے انحراف کے باعث اور بقا کی جنگ لڑنے سے گریز کی وجہ سے ہمارے مقتدر طبقے کے سامنے آئے اور یمارے کم نظر ، اقتدار کے دوام اور سستی مقبولیت کے خواہاں لوگوں نے وہ فیصلے کئے کہ جس کے نتیجے میں ہمارے سماج میں تھیوکریسی نے اپنی جڑیں مضبوط کیں اور جس کے باعث آج ہم اکثر معاملات میں آج کے سعودی عرب سے بھی زیادہ کٹر ، شدت پسند اور (کمزوری کے باوجود) اپنی رائے کو مطلق سمجھنے اور اس پر عمل درآمد کروانے پر مصر رہنے والا معاشرہ ہیں جس کے سفر کی سمت ہمیں بین الاقوامی تنہائی کی طرف لے جانے پر،گامزن ہے ۔
اگست 1947 سے دسمبر 1971 تک کے غیر ذمہ دارانہ ، لایعنی اور ذاتی اقتدار کو دوام دینے کے "مخلصانہ" فیصلوں کی ایک لمبی تاریخ ہے جن کا مکمل احاطہ اس تحریر میں ممکن نہیں ۔ یہ نہیں کہ اس دور میں زرعی اور صنعتی ترقی ناپید تھی یا عوام اور حکومت کسی حد تک (خاص طور بھارت اور قریبی ممالک کے مقابلے میں ) خوشحال نہ تھی مگر یہ سارا بندوبست شاخ نازک پہ وہ آشیانہ تھا جس کی ناپائیداری کا مرض آج بھی ہمیں کھا رہا ہے ۔ اس سے آگے چلیں تو ایک وقفہ کٹے پھٹے پاکستان کو اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا کرنے کا ہے جس میں 1972 سے 1977 کے اچھے برے فیصلے ہیں ۔ پھر ہماری جہد للبقا سے عاری 1979 سے 1988 اور پھر دوبارہ 2001 سے 2007 ، جہاں ہماری فرنٹ لائن خدمات ہمیں درست معاشی، سماجی اور سیاسی ارتقا سے پرے رکھتی رہیں۔ اس میں نوے کی دہائی اور 2008 سے آج تک کا سفر بھی شامل کر لیں جب ہم نے اپنا رہن سہن، فیصلوں کا طریقہ اور قومی عادات وہی رکھیں جو امداد اور قرض،کے بگاڑے ، فقرے رئیسوں کی ہوتی ہیں ۔
یاد رہے کہ فیصلوں اور حکومت کے مروجہ انداز سے مختلف نتیجوں کی توقع کو آئن سنائین احمق ہونے کا ثبوت قرار دیتا ہے ۔ میری رائے میں اس عدم ارتقا اور اس بقا کی جنگ سے انحراف نے آج ہمیں وہ بنا دیا ہے جو ہمیں نہیں ہونا چاہئے تھا۔ میری نظر میں پاکستان کو مختلف ادوار میں یہ بین الاقوامی امداد کی تن آسانی مہیا نہ ہوتی تو ہم پاک چائنہ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچتے ۔ سوئی گیس کے قیمتی ترین ذخیرے کو سی این جی گاڑیوں کی دیا سلائی سے محفوظ رکھتے۔ حکومتوں کے خرچوں کو قابو میں رکھتے ( اس بجٹ میں صوبائی اور وفاقی حکومت کے اخراجات قریب چودہ کھرب ہیں جس میں وفاق اور صوبوں کے غیر دفاعی اور غیر ترقیاتی اخراجات ساڑھے پانچ کھرب کے ہیں ) ۔
یہ تن آسانی نہ ہوتی تو ہم گورننس کی بہتری پر محنت کرتے جس میں سرکاری اہلکار نوٹ لکھنے اور بنانے کی بجائے آبی گزرگاہوں میں عمارتیں بنانے سے روکتے ۔ تعلیم اور صحت ، جس پر سرکار سال کے 1500 ارب خرچ کرتی ہے ، اس گرے ہوئے معیار پر نہ ہوتی جو لوئر مڈل کلاس والوں کو بھی پرائیویٹ سکولوں اور ہسپتالوں کا راستہ دکھاتی ہے ۔ ہمارا ٹیکس کا نظام زیادہ آسان ، منصفانہ اور فعال ہوتا ۔ ہماری انتظامیہ اور پولیس لوگوں کے استحصال اور حکومت کرنے والا ہونے کی بجائے ان کی مددگار ہوتی ۔ ہمارے خارجہ تعلقات دشمنی اور بھیک منانگنے کے مواقع ڈھونڈنے کی بجائے تجارت ، سرمایہ کاری اور ہمہ گیر دوستی پر استوار ہوتے ۔ ممکن ہے کہ اس ترقی معکوس کی اور وجوہات بھی ہوں ( جو یقینا" ہوں گی ) مگر پاکستان کی تاریخ اچھے فیصلے نہ کرنے ، دستک دیتی ہوئی opportunities کو نظر انداز کرنے اور نیوٹن کے inertia سے مشتق جمود یا بے سمت حرکت سے عبارت ہے جو ہمیں اور ہمارے ہم وطنوں کو اسی نیم زندہ نیم مردہ حالت میں حنوط کئے رکھے گی جب تک status quo کے مدار سے نکلنے کی توانائی اور درست سمت کا تعین مہیا نہیں ہوتا۔
فیض کہہ گئے ہیں کہ :
وصال یار بڑی چیز ہے مگر ہمدم
وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں
ہم اور ہمارے خرچے
جن لوگوں نے گلزار اور کیفی اعظمی کا غالب پر مشہور سیریل دیکھ رکھا ہے یا خواجہ حالی یا غلام رسول مہر کی غالب کی بائیو گرافی پڑھ رکھی ہے انہیں کچھ اندازہ ہوگا کہ استاد کے خرچوں اور آمدن کا بعد کس قدر زیادہ تھا۔ آمدن کا بنیادی ذریعہ ایک خاندانی پینشن تھی ( سو پشت سے پیشہ آبا سپہ گری والی ) جس کا کیس کلکتے جانے کے باوجود ہار گئے ( کلکتے کا بس یہی احسان رہے گا کہ استاد سے ہائے ہائے کی ردیف والی غزل لکھوا لی ) ۔ اس پہ مستزاد ، استاد نے کام نہ کرنے کی ٹھان رکھی تھی ۔ ریزیڈنٹ بہادر نے فارسی معلم کے طور پر رکھنا چاہا تو اس لئے لوٹ آئے کہ انگریز استقبال کو نہیں آیا ۔ ذوق کی وفات کے قریب تک مغل دربار میں نہیں گئے کہ دوسرے نمبر کی حیثیت قبول نہ تھی ۔ روزانہ خوراک میں ڈھیروں بادام کی سردائی ، بکرے کے سیر ، دوسیر گوشت اور پاو بھر بادہ ناب ( خانہ ساز ) سے کم پر گزارا نہیں تھا۔ ملازم اور گھر کا خرچ الگ ۔تین سو کا خرچ اور آمدن ستائیس روپے۔ مزید برآں استاد چوسر اور شطرنج سے بھی شوق فرماتے اور اس میں پیسے لگانے کی نوبت آتی تو اس سے بھی نہ چوکتے ۔ نادہند ہونے پر مقدمے بھی ہوئے اور قمار بازی پر قید بھی مگر مرزا نوشہ نے نہیں بدلنا تھا سو نہیں بدلے ۔ قرضہ حد سے بڑھ گیا تو،کسی خیرخواہ کی کاوش سے سرکار دربار میں مورخ وغیرہ مقرر ہوئے ۔ اس سے پہلے نواب رامپور کا سو روپے کا وظیفہ روزگار کے مسائل وغیرہ حل کرتا رہا۔ غدر میں دو سال گویا گھر میں نظر بند رہے ۔ بعد میں انگریز سرکار سے کچھ رقم ملنا شروع ہوئی ۔ اسی نیم خوشحال اور نیم بدحال طریق سے 72 سال کی زندگی گزار کر،رخصت ہوئے ۔ وہ اتنے عظیم لکھاری تھے کہ ضروری تھا کہ معاشرہ انہیں آلام روزگار سے محفوظ رکھتا اور کسی قدر ایسا ہوا بھی مگر استاد کی زندگی زیادہ تر ایسے ہی کاو کاو سخت جانی میں صبح کو شام کرتے گزری ۔
پاکستان کی ریاست کے حالات دیکھیں تو وہی استاد والا معاملہ دکھتا ہے کہ کام بھی نہ کریں گے اور خرچ بھی کم نہیں کرنا ۔ غالب تو پھر بے بدل شاعر تھے اور اس گاہ عشرت اور گاہ عسرت میں تا حشر دنیا میں رہنے والا دیوان لکھ گئے مگر ہماری اجتماعی زندگی میں استاد جیسے چلن کے باوجود کچھ بھی معرکہ آرا وجود میں نہیں آیا۔
جن اصحاب و خواتین کو معاشی اعداد سے کچھ رغبت ہے ان کے لئے عرض کئے دیتے ہیں جون 2022 کو اختتام پذیر ہونے والے سال میں ہمارے اخراجات کا کیا عالم رہا ۔ صرف وفاقی حکومت پر نظر دوڑائیں تو اپنے ہی لوگوں ( ڈیپازٹ) اور بینکوں کو 2777 ارب کا سود دیا اور بیرونی قرضوں پر 373 ارب کا (ہر چند کہ قرضوں کی بات پر ہمارا دھیان بیرونی قرضوں پر جاتا ہے ) ۔ یہ قرضے کئی سالوں میں ہماری حکومتوں نے ویسے ہی لئے جیسے غالب مہاجن اور کریانہ والے سے لیتے تھے کہ آمدن کم تھی اور خرچ پر سمجھوتہ ناممکن ۔
آگے چلئے ، سول پینشن پر 136 ارب اور فوجی پینشن پر 400 ارب کا خرچ ۔ دنیا میں عمومی طور پر پینشن کسی فنڈ کی آمدن سے دی جاتی ہے جو ماہ بماہ دوران سروس اکٹھا ہوتا رہتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد اسی اصل زر پر منافع سے پینشن کی ادائیگی ہوتی ہے ۔ بہتر طبی اور غذائی حالات کی وجہ سے ہماری اوسط عمر بڑھ رہی ہے اور اس کے ساتھ پینشن دینے کی ذمہ داری بھی ۔ ضیا صاحب سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد بیوہ اور ان بیاہی بیٹیوں کی بھی پینشن مقرر کر گئے ۔ یہ نہیں کہ حکومت کو اپنے ملازمین کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہئیے مگر یہ تو ہو کہ اس ویلفیئر اور سوشل سیکورٹی کے لئے پیسوں اور آمدن کا کوئی بندوبست ہو ۔ اگر ہم پینشن کا یہی نظام رکھنا چاہیں تو اس کے قریب 600 ارب کی فنڈنگ کے لئے کچھ نہیں تو کم از کم 3000 ارب روپے کا پینشن فنڈ چاہئے جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہے مگر مستقبل قریب میں پینشن کی مقدار اور طوالت میں کچھ کمی کے امکان پر باریک بینی سے سوچا جائے اور آج کے بعد آنے والے ملازمین اور چالیس سال سے کم عمر کے لوگوں کے لئے پینشن فنڈ میں ملازمین اور حکومت کی باہمی شراکت کا کچھ انتظام ہو ۔ پچھلے دس سال میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اس سلسلے میں بہت سا theoretical کام ہو چکا مگر حتمی انصرام ابھی عمل پذیر ہونے سے کئی فیصلے پرے ہے ۔
دفاع کا خرچ تو شاید ہماری جغرافیائی مجبوری ہے مگر وفاقی حکومت کا گئے سال میں 3100 ارب کا غیر ترقیاتی، غیر دفاعی اور غیر سودی خرچ mind boggling ہے ۔ اس میں 530 ارب تو وفاقی حکومت کو چلانے کا خرچ ہے جس میں بڑا حصہ وفاقی ملازمین کی تنخواہ (ERE) وغیرہ ہے۔ سوچنا چاہئے کہ وفاق میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد اس تعداد میں ملازمین کی ضرورت ہے ؟ کتنے ہی ڈویژن اور ذیلی ادارے اور کارپوریشنز ہیں جن کی شاید اب ضرورت نہ رہی ہو ۔ کتنے ہی پروجیکٹ اور ادارے ایسے ہیں جہاں ابھی کام شروع بھی نہیں ہوا اور تنخواہ اور بلڈنگ کا کرایہ جاری ہو چکا ہے ؟ لازم ہے کہ حکومت لوگوں کو بیروزگاری سے بچانے مگر یہ نہ ہو کہ چند ہزار یا لاکھ ملازمتیں بچاتے بچاتے ملک ہی دیوالیہ ہو جائے ۔ مجھے یاد ہے کہ اکتوبر 20 میں ، ہماری ٹیم نے ایک رات میں پاکستان سٹیل مل کے آدھے ( 4500) ملازمین کو تمام واجبات کے ساتھ نوکری سے نکال کر بے تحاشا بد دعائیں سمیٹیں ۔ معاملہ اب کورٹ میں ہے لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ 2015 سے بند اس مل کے 9000 ملازمین کو قرض کے پیسوں سے کب تک تنخواہ ، پینشن ، ترقیاں اور گھر دئیے جا سکتے ہیں ۔ بہت اچھا ہوتا اگر یہ مل منافع میں چل سکتی مگر اگر ایسا نہیں تو کب تک حکومت یہ ذمہ داری نبھانے اور کیسے؟ کہنے کو پرائیویٹ سیکٹر کی شراکت اور مل کو منافع میں چلانے ، زمین بیچ کر لوگوں کو پیسے دینے کی طرح کے بہت سے حل پیش کئے جاتے ہیں مگر،یقین مانئیے یہ سب کچھ بہت پیچیدہ اور مشکل ہے ۔ یہی حال پی آئی اے ، ریلوے اور سینکڑوں اداروں اور کمپنیوں کا ہے جہاں ہزاروں اور لاکھوں سرکاری اور نیم سرکاری ملازم ہر ماہ بغیر کوئی کام کئے تنخواہ بھی پاتے ہیں اور ترقی اور پینشن بھی ۔ مجھے معلوم ہے کہ گورنمنٹ کی رائٹ سائزنگ بے حد مشکل ہے اور اس پر طرہ یہ کہ قوانین اور عدالتی نظیریں سراسر ملازمین کے حق میں ہیں مگر یقین کیجئے اتنا خرچ اٹھانا نہ مرزا نوشہ کے بس میں تھا نہ مملکت خداداد کی دسترس میں ۔
تنخواہوں کے علاوہ صرف وفاقی حکومت نے گزشتہ مالی سال میں 1515 ارب روپے سے زائد کی سبسڈی دی ۔ بجلی مہنگی خرید / بنا کر سستے داموں بیچی ، فرق 1100 ارب ۔ پٹرول مہنگا خریدا اور سستا بیچا ، فرق 377 ارب ۔ آٹا ، چینی ، دالیں ، گھی فرق 66 ارب ۔ قیامت ہے کہ وفاقی حکومت کو ٹیکس آمدن میں سے وصولی ہو 2500 ارب کی اور مزید نان ٹیکس آمدن ہو 1300 ارب کی اور خرچوں میں 1500 ارب کی گرانٹ اور 1500 ارب سبسڈی میں عوام الناس کو دوبارہ واپس کئے جائیں ۔ ملازمین کو 600 ارب تنخواہ میں دے دئے ، پنشن میں مزید 600 ارب اور 300 ارب احساس/ بینظیر،پروگرام میں ۔ اگر یہ سب واپس ہی دینے تھے تو سوال یہ کہ اکٹھے ہی کیوں کئے ؟
بقول شاعر ؛
سپرد خاک ہی کرنا تھا مجھ کو
تو پھر کاہے کو نہلایا گیا ہوں
مزید دیکھئے گا ۔ پار سال میں 1000 ارب روپے مزید اضافی گرانٹس کی شکل میں خرچ ہوئے جس 270 ارب روپے ان اداروں کے نادہندہ ہونے پر دینا پڑے جہاں حکومت نے ادائیگی کی ضمانت دے رکھی تھی ( پی آئی اے ، سٹیل مل ، آئی پی پی اور بہت سی سرکاری کمپنیاں ) ۔ 104 ارب روپے اس لئے دینے پڑے کہ ابتدائی تخمینے میں پورے خرچ سے کم ہونے کی آرزو پوری نہ ہوئی ۔ 47 ارب ریلوے کو مزید دینا پڑے کہ قومی ادارہ ہے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی مزید 110 ارب روپے چلے گئے اور احساس پروگرام میں بڑھتی مہنگائی کے کارن مزید 250 ارب ۔ 65 ارب برآمد کنندگان کو ترغیب دینے کے لئے اور 30 ارب HEC کو چلے گئے اور چھوٹے چھوٹے بہت سے اداروں کو باقی روپے ۔
ان اضافی خرچوں کا اثر ترقیاتی یا نئے بننے والے پراجیکٹس پر یوں آیا کہ 900 ارب کے تخمینے کے مقابلے میں 550 ارب ہی خرچ ہوا ۔ مجھ سے پوچھیں تو ہمارا خرچ ہماری آمدن سے اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ناقابل برداشت قرض کے ہاتھوں ہمارا ریاستی وجود خطرے میں ہے ۔ مگر ایک کے بعد دوسری حکومت ان مشکل فیصلوں سے گھبراتی ہے ۔ میرا ڈرائیور کل کہہ رہا تھا میری تنخواہ 35000 ہے اور بجلی کا بل 17000 آیا ہے کدھر جاوں ؟ پوچھا اے سی ،، موٹر۔، استری اور فرج ہے ؟ بولا ہے اور بچوں کی وجہ سے کنجوسی سے چلاتے ہیں ۔
غور کریں تو مسئلہ وہی امداد کی رنگین زندگیوں کا ہے کہ ہمیں نوکری دے تو سرکار مع بعد از مرگ پینشن ۔ بجلی کی قیمت نہ بڑھائی جائے ۔ پٹرول سستا ملے اور اشیائے ضرورت بھلے درآمد کی جائیں مگر سب کو،مناسب قیمت میں دستیاب ہوں ۔ پچھلے سال چینی برازیل سے منگوائی 120 روپے کلو اور بیچی 90 روپے کلو ۔ پوریا کھاد منگوائی 7500 کی بوری اور بیچی 1800 روپے میں ۔ وجہ ڈھونڈو تو میڈیا اور اپوزیشن کا ڈر اور کسی حد تک عوام کو پر امن رکھنے کی خواہش۔
یہ اعداد وشمار جو آپ کے سامنے رکھے ہیں ، ان کے ہوتے ہوئے معیشت پر سیاست اور میڈیا کا بیک لیش اور عوام کا غم وغصہ وہی ہے جو امداد کے دنوں کی حکومتوں میں بگڑے ہوئے طبقوں کا ہو سکتا ہے ۔ درست ہے کہ حکومت بہت کچھ کر،سکتی ہے مگر یقین مانئے کسی بھی حکومت کو یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہئے جو ہم کر رہے ہیں ، خاص کر اس حکومت کو جو لوگوں سے قومی آمدن کا صرف دس فیصد ٹیکسوں میں لیتی ہے ۔ اس قرضوں کے گرداب سے نکلنا ہے تو سب کو سختی جھیلنی ہو گی ۔ بجلی ، گیس ، پٹرول اور اشیا کی قیمتوں میں کی حکومت کی جانب سے کمی کی امید کو توڑنا ہو گا ۔ سرکاری نوکریوں ، تنخواہوں اور پینشن پر نظر ثانی کرنا ہوگی ۔ اس کے نتیجے میں ہم سب کی عمومی زندگی میں آسائش میں کمی ضرور آئے گی ۔ شاید غریب اور لوئر مڈل کلاس والوں پر یہ تکلیف باقی لوگوں سے بڑھ کر آئے مگر یہ یاد رہے کہ انسانی resilience ہمیشہ adversity میں اپنے جوہر،دکھاتی ہے ۔
تو شب آفریدی ، چراغ آفریدم
مگر یہ نہایت مشکل راستہ ہے جس میں حکومت ، اشرافیہ، طاقت کے دیگر مراکز اور اپوزیشن کو سیاست چھوڑ کر مشترکہ اقدامات لینے ہوں گے جو آج کل کے حالات میں ناممکن نظر،آتا ہے ۔ ائر کنڈیشننگ کے اس کام میں ابھی قومی پیداوار ، صوبائی خرچے ، ٹیکس آمدن اور سماجی ایکتا کے حوالے سے بات ابھی باقی ہے۔
فی الحال مرزا نوشہ کی بتائی گئی قرض کی مے سے حظ اٹھائیے اور امید رکھئیے کہ ہماری فاقہ مستی یا نری مستی ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لائے گی.
ڈوبے ہوئے صوبے
ہندوستان میں انگریز سرکار کی صوبائی حد بندی زیادہ تر ان کی فتح سے ذرا پیشتر کے سیاسی انتظام پر مبنی تھی۔ برطانوی راج میں حکومت کرنے کا چار قسم کا نظم تھا ۔ اول صوبے (جہاں انگریز نے جنگ کے ذریعے قبضہ کیا یا جہاں کے لوگ غدر میں انگریزکے خلاف لڑے ) ، دوم شاہی ریاستیں (جنہوں نے غدر میں انگریز کا ساتھ دیا اور بعد میں انگریز سرکار کے باجگزار رہے) سوم ، کچھ لوکل انتظام کے علاقے (جہاں کے زعما کو انگریز پولیٹیکل ایجنٹ یا اس سے ملتے جلتے کسی انتظام سے چلایا کرتے تھے) اور چہارم برما ، سیلون اور نیپال وغیرہ جن کو عمومی طور پر ہندوستان کے انتظام سے الگ رکھا گیا ۔ یہ انتظام ایک قسم سے برطانوی نو آبادیاتی نظام کو least resistance کے اصول پر چلانے کا ذریعہ تھا اور عوام کی فلاح کا خیال اسں کا غالب محرک ہرگز نہیں تھا ۔ البتہ سرکار انگلشیہ کے ہاں حکومت کرنے کے لئے divide and rule کی پالیسی ایک communal tension پیدا کئے رکھتی تھی جو آگے چل کر دو قومی اور اس سے ملتے جلتے بہت سے نظریوں کو بڑھنے کی جگہ دیتی گئی۔ انگریز دور میں صوبوں کی rearrangment میں موجود یہ ٹینشن لارڈ کرزن کی بنگال کی تقسیم کے واقعات اور قائد اعظم کے چودہ نکات ( سندھ کو بمبئی سے الگ کیا جائےاور دوسرے کسی صوبے کی حدود میں ایسی تبدیلی نہ کی جائے کہ اکثریت اقلیت میں بدل جائے ) سے عیاں ہے ۔
ہمارے مشرقی ہمسائے کو آزادی کے بعد یہ بات بہت جلد سمجھ آگئی تھی کہ نئے معروضی حالات میں صوبائی حدود، وفاقی وسائل کی صوبوں کو منتقلی اور صوبائی خودمختاری کی اس legacy کو ایک نئے آزاد سیاسی تناظر،میں کیسے دیکھنا ہے ۔
1949 میں ، جب ہمارے سیاسی اکابر نہایت عرق ریزی سے قرارداد مقاصد تشکیل دے رہے تھے ، عین اسی وقت ہمارے ہمسائے میں ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی میں آئین کی منظوری کا عمل جاری تھا جس تک پہنچنے میں ہمیں علامتی طور پر سات مزید سال اور حقیقت میں 24 سال انتظار کرنا پڑا ۔
انڈیا کی اس دستور ساز اسمبلی میں آئین ڈرافٹ کرنے کی کمیٹی کے انچارج ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر تھے جنہیں گاندھی کے اصرار پر کانگریس نے یہ ذمہ داری تفویض کی گئی تھی ۔ مجوزہ آئین کی پہلی ہی شق پر ( جہاں انڈیا کو صوبوں اور ریاستوں کو یونین قرار دیا گیا تھا) پر ایک ممبر کے ٹی شاہ نے اعتراض کیا کہ یہاں لفظ یونین کی بجائے فیڈریشن استعمال ہونا چاہیے۔ اس پر امبیڈکر بولے کے میں نے یہ لفظ جان بوجھ کر استعمال کیا ہے کہ ہم آئین میں کسی ریاست یا صوبے کو ملک سے الگ ہونے کا حق نہیں دے رہے اور وفاق کا لفظ اس صورتحال کو cover نہیں کرتا ۔
ابھی پارٹیشن کا صدمہ گہرا تھا اور کانگریس اور ہندوستانیوں کے ہاں مزید تقسیم کا چرکہ سہنے کا یارا نہ تھا سو آج تک انڈیا کی مرکزی حکومت یونین آف انڈیا کہلاتی ہے ۔ اسی آئین کی شق 3 میں بھارت کی مقننہ کو یہ اختیار بھی دے دیا گیا کہ وہ کسی بھی وقت سادہ اکثریت سے،صوبائی حدود میں ردو بدل کر سکتی ہے ۔ قانونی طور پر صدر صاحب ایسے بل کو دو تین مہینے کے لئے متعلقہ صوبے/ ریاست کو مشورے کے لئے بھیجنے کے پابند ہیں مگر کسی صوبائی حکومت کی مخالف رائے اس بارے میں کوئی binding حیثیت نہیں رکھتی ۔ چنانچہ اسی اصول پر سب سے پہلے بمبئی صوبے کے دو ٹکڑے کرکے مہاراشٹر اور گجرات کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس پر واویلا بھی ہوا اور بات سپریم کورٹ تک بھی گئی جہاں مرکزی پارلیمنٹ کے اس اقدام کو جائز قرار،دیا گیا۔ چنانچہ اسی اصول کے تحت جہاں 1947 میں تقسیم سے پہلے عملی طور پر 11صوبے ، 565 شاہی ریاستیں اور 6 مرکزی علاقے تھے ، 1956 میں 14 صوبے اور 6 مرکزی علاقے بن گئے اور 2014 میں یہ تعداد بڑھ کر 29 صوبوں اور 7 مرکزی علاقوں میں بدل گئی ۔
وسائل کی تقسیم کی بات چلی تو وفاقی وسائل میں صوبائی حصہ 30 فیصد مقرر ہوا جو اب بڑھتے بڑھتے 41 فی صد کو پہنچا ہے ۔ یہ درست ہے بھارت میں اشیا پر سیلز ٹیکس کا اختیار صوبوں کے پاس ہے مگر یونین اور سٹیٹس کے مجموعی تخمینوں کا جائزہ لیں تو ان کے ہاں وفاق کسی صورت سے تنگ دست نہیں۔ ان کا دفاع کا خرچ بھی ہم سے زیادہ ہے اور وفاقی سبسڈی بھی ہم سے بہت بڑھ کر۔ اختیار اور انتظام کی صورت دیکھیں تو وفاقی اور صوبائی محکموں کی تقسیم قریب ہم سے ملتی جلتی ہے مگر یونین/ وفاق نہ تو ہماری طرح دارالحکومت تک محدود ہے نہ اپنے کسی کام کے لئے صوبے کا دست نگر۔
جب انڈیا بہتر انتظام اور مرکز گریز قوتوں سے نمٹنے کے لئے انتظامی اور لسانی / قومی صوبے بڑھا رہا تھا۔ اختیارات اور محاصل کے تقسیم کا نظام بہتر کر رہا تھا وہاں ہمارےارباب حل و عقد ایک دوسری ہی راہ پرچلتے ہوئے 1955میی ہمارے حصے آئے چار چھے صوبوں کا ون یونٹ بنا رہے تھے ۔ معکوس سمت کا یہ سفر ہماری قومی زندگی کو ایسے موڑ پر لے آیا جہاں ہمارا ریاستی وجود بری طرح سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا . جس بھارت کو ہمارے دور بیں رہنما 15 حصوں میں ٹوٹنے کا خواب دیکھ رہے تھے وہ تو قائم رہا مگر دسمبر 71 میں ہمارے قومی وجود کے دو ٹکڑے ہو گئے ۔ اس دلیل سے قطع نظر کہ پاکستان کے ہزار میل دور وجود کے دو حصوں پر مشتمل ہونا غیر فطری تھا یا یہ گمان کہ چند غداروں نے دشمن کے ساتھ مل کر مادر وطن کے ٹکڑے کئے ، اگر بہ نظر غایت دیکھیں تو انتظامی تقسیم سے بےزاری اور ذیلی قومیتوں کا انکار شاید پاکستان ٹوٹنے کا سب سے بڑا سبب تھا ۔
بھارتی پنجاب میں مرکز گریز رحجان، سکھوں کی جداگانہ مذہبی شناخت اور پاکستان کے ساتھ طویل سرحد کی وجہ سے بہت زیادہ تھا ۔ ہر چند کہ اس کو عملی طور پر ختم کرنے میں آپریشن بلیو سٹار ، اندرا کی موت اور نتیجتا" سکھوں کی ان گنت لاشوں کا کردار رہا ہوگا ۔ مگر اگر غور سے دیکھیں تو مشرقی پنچاب کی علیحدگی پسندی کی بیخ کنی نومبر 1966 ہی میں کر دی گئی تھی جب پنجاب کو ہریانہ اور پنجاب میں تقسیم کیا گیا ( مزید برآں پنجاب کے کچھ علاقے ہماچل پردیش کو بھی دے دئیے گئے تھے )۔کچھ ایسا ہی انتظام (چین ، برما اور پاکستان/بنگلہ دیش کے ڈر سے ) بھارت کے بنگلہ دیش سے پرے کے شمال مشرقی علاقوں میں بھی کیا گیا جہاں آسام کو میزورم ، اروناچل پردیش ، ناگا لینڈ اور میگھالیہ میں بانٹا گیا۔
ہر چند کہ ہماری درسی کتب میں اس کا ذکر نہیں مگر،مجیب کے چھ نکات 1966 میں منظر عام پرآچکے تھے جس میں دفاع اور کچھ شرائط کے تحت کرنسی اور خارجہ امور کے علاوہ سب کچھ دو حصوں میں بانٹا جانا تھا ۔ ایک طرف تو یہ نکات مشرقی پاکستان میں علیحدگی کوہوا دے رہے تھے تو دوسری جانب یہی نعرے سرحد ، سندھ اور بلوچستان میں بھی قوم پرست جماعتوں کو پاپولر کر رہے تھے ۔ چنانچہ اسی دباو نے نہ صرف 1970 میں ون یونٹ کے خاتمہ کروایا بلکہ سقوط ڈھاکہ کے بعد 1973 کے آئین کی تشکیل میں ، حد درجہ بڑھی ہوئی صوبائی خودمختاری اور صوبائی حدود کی sanctity اسی مومینٹم کا شاخسانہ ہے ۔ دیکھا جائے تو بنگلہ دیش کے بعد بقیہ پاکستان میں شاید ایک unitary حکومت بھی کام دے جاتی ۔ مگر یوں لگتا ہے کہ مشرقی حصے کی علیحدگی کا guilt ہمارے نئے آئین بنانے والوں کے ذہنوں میں بہت سے ان دیکھے اور انجانے خوف طاری کرتا رہا اور ہماری قومی سوچ ایک بار پھر امبیڈکر کی سالمیت ، نسبتا" مضبوط مرکز اور فعال صوبوں سے ہٹ کر کمزور مرکز اور کسی حد تک خود مختار صوبوں کی طرف چل پڑی ۔
ہر چند کہ آگے چل کر بہت سی جمہوری اور غیر جمہوری ترامیم نے 2010 تک ایک مضبوط مرکز کو ہی قائم رکھا مگر ساتویں این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارہویں ترمیم کے بعد ہماری عمرانی معاہدے میں صحیح وقت پر مناسب فیصلے نہ کرنے کی fault lines بہت نمایاں ہو کر دکھنے لگی ہیں ۔
اب یہ عالم ہے کہ ہمارے آئین کی فیڈرل لسٹ کے پہلے حصے کے علاوہ تمام اختیارات صوبوں کے پاس ہیں ۔
وفاقی محاصل کا قریب 60 فی صد صوبوں ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو جاتا ہے اور وفاق کے حصے صرف 40 فی صد آتا ہے ۔ صوبوں کے پاس اپنے ٹیکس لگانے کا اختیار ہے مگر آئین کی شق کے مطابق کوئی بھی وفاقی ٹیکس صوبوں کو 60 فی صد حصہ دئیے بغیر نہیں لگایا جا سکتا۔ ایک اور ترمیم کے تحت صوبوں کا وفاقی محاصل میں حصہ کم بھی نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف نئے صوبے بنانے کے عمل پر 1973 سے ہی وہ قدغنیں ہیں کہ متعلقہ صوبے کی super majority کے بغیر صوبائی حدود میں تبدیلی ناممکن ہے ۔ صوبائی حدود کی اس قید کو ہٹا دیں تو شاید مستقبل قریب میں پنجاب سے تین ، سندھ ، کے پی اور بلوچستان سے دو دو صوبے بنائے جا سکتے ہیں ۔ اس سے شاید پنجاب کی مرکز پر اجارہ داری بھی نہ رہے اور بقیہ تین صوبوں میں موجود لسانی اور ethnic کشمکش کا رحجان بھی کم ہو جائے ۔ مگر ہماری تاریخ کا بوجھ ، جمہوری روایات کا فقدان اور صوبوں اور قومیتوں کا باہمی mistrust ہمیں اس راہ پر کبھی بھی جانے نہیں دے گا۔
موجودہ vertical تقسیم کا NFC ایوارڈ اس انداز کا ہے کہ وفاق کا وجود اور اس جڑے ملک کا وجود خطرے میں ہے۔ وفاق کا موجودہ سال کا خرچ 9500 ارب ہے اور ٹیکس آمدن میں حصہ صرف 2850 ارب ( جس میں صوبوں کی ترقی کے لئے لئے گئے قرض کا سود ہی 3900 ارب ہے ) ۔ اس کے مقابلے میں صوبے نسبتا" زیادہ خوشحال ہیں ۔ مثلا" سال 2021 کے اعداد و شمار دیکھیں تو بلوچستان کا خرچ 400 ارب جس میں وفاق سے حصہ 376 ارب اور اپنی آمدن 24 ارب۔ پنجاب کا خرچ 2182 ارب ، وفاق سے حصہ 1762 ارب ، صوبائی آمدن 420 ارب ( زرعی انکم ٹیکس صرف اور صرف ڈھائی ارب روپے) ۔ سندھ کا خرچ 1306 ارب ، وفاق سے حصہ 933 ارب ، صوبائی آمدن 283 ارب۔ خیبر پختونخواہ کا خرچ 804 ارب ، وفاق سے حصہ 727 ارب صوبائی آمدن 85 ارب ۔ اور اس قدر کم وسائل کے باوجود ٹماٹر سے پٹرول تک کی قیمت قابو رکھنے ، غریبوں کا خیال رکھنے اور بجلی کے نرخ میں سبسڈی کا سارا بوجھ ہمیشہ مرکزی حکومت کے ذمہ رہا ہے اور اس میں خرابی پر گالی بھی اسی کا نصیبہ ۔
ان تمام صوبوں کے 2010 سے پہلے اور بعد کے اخراجات کو دیکھیں تو قریب وہی Ratios ہیں جو ساتویں این ایف سی ایوارڈ سے پہلے تھیں ۔ ہونا تو یہ تھا کہ صوبوں کو دئے گئے اضافی وسائل، اضافی ذمہ داریوں کی طرف جاتے مگر اگر تفصیلات میں دیکھیں تو انتظامیہ، امن آمان ، تعلیم، سڑک اور صحت پر بیشتر وسائل خرچ ہوجاتے ہیں ۔ زراعت، صنعت ، خاندانی منصوبہ بندی ، غریبوں کی کفالت پر اخراجات ابھی بھی نہایت کم ہیں ۔ اس پر طرہ یہ کہ ان میں سے خاص کر پنجاب میں اجناس کے حوالے سے سرکلر قرضہ حد سے زیادہ بڑھتے ہوئے رجحان کا شکار ہے ۔
اب یا تو ہمارے اجتماعی تاریخی فیصلے غلط تھے یا ہم سے اپنے نیک ارادے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچائے گئے مگر حالت یہی ہے کہ جلد یا بدیر کم ازکم وفاق کی debt servicing کا بوجھ صوبوں اور وفاق میں تقسیم کرنا پڑے گا وگرنہ ملک کے دفاع ، خارجہ امور ، بین الاقوامی تجارت ، خزانے اور کرنسی کا نظام چلانا دن بدن مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ ہونا تو شاید یہی ہے کہ کچھ بھی نہیں ہونا ، مگر میری رائے میں موجودہ راستے پر چلتے ہوئے ہمارا حال ونڈر لینڈ والی ایلس سا ہوگا جس نے جب کسی سے راستے کے بارے میں پوچھا تھا کہ ؛
Alice: “Would you tell me, please, which way I ought to go from here?”
The Cheshire Cat: “That depends a good deal on where you want to get to.”
Alice: “I don’t much care where.”
The Cheshire Cat: “Then it doesn’t much matter which way you go.”
Alice: “…so long as I get somewhere.”
The Cheshire Cat: “Oh, you’re sure to do that, if only you walk long enough.”
سو اس " somewhere " تک پہنچنے کا انتظار جاری رکھیں ۔
دخل در محصولات
مرزا نوشہ ، قرض کی مے پیتے اور انگریز سرکار اور والیان ریاست سے اپنے طرز سخن کی داد بصورت روپیہ وصول کرنے کی کوشش کرتے ۔ انہی حالات میں بادام کی سردائی کھاتے اور عمدہ گوشت نوش جاں کرتے رہے ۔ یہ نہیں کہ پہلے بہادر شاہ ، پھر نواب رامپور اور پھر انگریز سرکار نے استاد کی مشق سخن اور آسانی ء تن کو بنائے نہیں رکھا مگر زندگی کی مجموعی صورت وہی رہی کہ
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
غالب گو کہ لافانی شاعر ہیں مگر ان کا جسمانی وجود اپنی طبعی عمر مکمل کر کے اپنے قرضداروں کے تقاضوں سمیت دیار ابدی کو جا پہنچا۔ مگر ملکوں وغیرہ کو ایسے فوت ہونے کی سہولت میسر نہیں۔ ہم جہاں اپنے ملک کے قائم رہنے پر بہت مسرور رہتے ہیں وہاں یہ حقیقت بھی ہم سے چھپی نہیں کہ افغانستان بھی قائم ہے اور صومالیہ وغیرہ بھی ۔ عمومی طور پر پچھلے پچاس برس میں شاید ہی کسی جغرافیائی طور پر متصل اور مذہبی ، ثقافتی اور تاریخی طور پر ملتے جلتے علاقوں میں جغرافیائی ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہو ۔ چیکو سلواکیہ ، یوگوسلاویہ، رشین فیڈریشن کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ شاید تاریخی طور پر علیحدہ قائم رہنے والے ملکوں کا مصنوعی ادغام تھا۔ جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور کی علیحدگی میں مذہبی رنگ نمایاں تھا ۔ مگر ہمارے سب سے قریب افغانستان میں 43 سال کی بین الاقوامی جنگ اور اندرونی خلفشار کے باوجود نہ تو تاجک، ازبک ، شیعہ اور پشتون حصے ہوئے نہ کسی ہمسایہ ملک نے اس پر قبضہ کیا۔ سو ہمیں بھی یہ یقین رہنا چاہئیے کہ ہماری سالمیت اور جغرافیائی وحدت کو کوئی خاص خطرہ در پیش نہیں ۔ یقین کر لیں کہ ہم 24 کروڑ جنونی اور غریب لوگوں پر کوئی ملک بھی قبضہ نہیں کرنا چاہے گا ۔ بلکہ ہمارے بدترین دشمن بھی یہ چاہیں گے ہم اسی ملک میں اور اسی بدحالی میں زندگی گزاریں ۔
نوبت یہ آچکی کہ بڑی ہی مشکل سے جون میں نادہند ہونے سے جان بچی تھی اور دوسری تلوار دسمبر میں سر پر ہے ۔ اس سے نکل بھی گئے تو پھر بھی ہر تین ماہ بعد ہم اسی طور سعودیہ ، امارات۔ چین ، امریکہ اور آئی ایم ایف کے در پر بھکاری بنے کھڑے ہوں گے ۔
ہمارے معاشی حالات کیوں نہیں سنبھلتے ، اس پر ہم نے نہ کبھی غور کرنا ہے اور نہ کوئی عملی قدم اٹھانا ہے ۔ ہماری بیماری کی اصل وجہ بہت سادہ ہے ۔ یعنی ہماری برآمدات، بیرونی سرمایہ کاری اور بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر کی رقم ( 66 ارب ڈالر - 2021/22) ہماری درآمدات (80 ارب) ، قرضے کی واپسی ( 14 ارب ڈالر ) اور باہر بھیجے جانے والی دیگر رقوم ( 2 ارب ڈالر ) سے سالانہ کچھ 30 ارب ڈالر کم ہے ۔ اس کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو قرضوں سے پورا کرتے کرتے آج وہ منزل آن پہنچی ہے کہ قرض کی قسط ادا کرنے کے لئے امپورٹ کی ایل سی کے پیسے روکنا پڑ رہے ہیں ۔ چاہے اب ہمارے ملک میں فرشتوں کی حکومت آجائے ، یہاں کے معاشی حالات بہت سے غیر مقبول اور تکلیف دہ ترین فیصلوں کے متقاضی ہیں ۔ میری سمجھ میں تو یہ بات ہی نہیں آتی کہ ان غیر مقبول اور سخت گیر فیصلوں کے لئے کون بقائمی ہوش و حواس اس ملک کی حکومت سنبھالنے کی ذمہ داری لینا چاہے گا۔ یقین کیجئے کہ اگلے دس سال اگر مخلص ترین سیاسی قیادت بھی میسر آجائے تو وہ بھی مسلسل عوام کی گالیاں کھانے سے محفوظ نہیں رہ سکے گی ۔
اگر اس ملک کے معاشی حالات کو تھوڑا سا سنبھالا بھی دینا ہے تو اس تیس سے چالیس ارب ڈالر کے خسارے کو دو سال میں قریب 10 ارب ڈالر کے خسارے میں بدلنا ہے۔ ایسا صرف اسی صورت ممکن ہے اگر ہم اپنی بیرونی آمدن کو بڑھا سکیں اور بیرونی اخراجات کو کم کرسکیں ۔
پچھلے بارہ سال میں برآمدات اپنی مقدار میں قریب وہیں کی وہیں پڑی ہیں ۔ 2010 سے 2020 تک تو ان کی ڈالر ویلیو بھی کہیں 25 ارب ڈالر پر رکی رہی تھی ۔ برآمدات بڑھانے کے ہزار جتن کے باوجود کوئی سٹرکچرل سقم ہے جو ہمیں اس طرف کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ اسی طور درآمدات ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے پانچ سال میں چالیس سے اسی ارب ڈالر کو پہنچ گئیں۔ اور اس پر مزید خرابی یہ کہ برآمدات کے لئے درآمد کئے بغیر گزارا نہیں کہ لوہا ، تانبا ، ایلومینیم ، دھاگا ، بٹن ، زپر ، مشین ، پارٹس اور کاٹن کے بغیر برآمدی سامان کی تیاری ممکن نہیں ۔ کارخانے ، گھر اور بس / گاڑی/ موٹر سائیکل چلانے کو پٹرول ، ڈیزل ، کوئلہ ، گیس بھی چاہئیے اور 24 کروڑ کا پیٹ بھرنے کو گندم ، چینی ، دالیں ، کھاد ، چائے اور خوردنی تیل بھی باہر ہی سے آنا ہے ۔ ایسے میں جب آبادی بھی خوفناک رفتار سے بڑھ رہی ہو اور بیرونی قیمتوں میں بھی دگنا اضافہ ہو جائے تو ہمارے جیسے edge پر رہنے والے ملکوں کے لئے دن سے رات کرنا عذاب ہو جاتا ہے ۔
یہ نہیں کہ ان مسائل کا حل نہیں مگر مصیبت یہ ہے کہ کوئی بھی طبقہ یا جماعت اس حل کی سیاسی اور سماجی قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں۔
ذرا سوچئے کہ کوئی بھی شخص یا کمپنی کس صورت میں اپنی بنائی چیزوں کو برآمد کرنے کی کوشش کرے گی ۔ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اگر پاکستان میں کچھ بیچنے پر 20 فی صد منافع ہو تو برآمد کرنے کا فیصلہ تبھی ہو گا اگر ایکسپورٹ سے متوقع آمدن تیس سے چالیس فی صد ہو ۔ مگر یہاں تو گل احمد ، نشاط وغیرہ جو قریب سب ہی کچھ ایکسپورٹ کر دیتے تھے اب پورے پاکستان کے چپے چپے پر دوکان کھولے،بیٹھے ہیں کہ جب اپنے ملک میں اتنا ہی یا شاید اس کے قریب منافع میسر ہے تو ایکسپورٹ کیوں کریں ۔قریب یہی صورت فیکٹری لگانے اور چلانے میں بھی ہے ۔ اگر سارا سال لیبر ، سرکار ، بینک ، سپلائر اور دکانداروں سے کھینچا تانی کے بعد 18 فی صد منافع کمانا ہے اور اس کے مقابل پلاٹ ، مکان ، پلازہ ، ڈالر ، گاڑیوں کی بکنگ وغیرہ پر تیس سے دو سو،فیصد تک کا منافع دستیاب ہو تو کوئی فاتر العقل ہی فیکٹری کے جھنجھٹ میں پڑے گا۔
بدقسمتی سے اس مسئلے کا حل رئیل سٹیٹ اور فیکٹری سے زیادہ آمدن دینے والی ہر شے پر اتنا ٹیکس لگانا ہے کہ فیکٹری کے آفٹر ٹیکس منافع کی شرح تمام passive آمدنیوں سے زیادہ ہو۔ پھر اس کے بعد ہمیں ایکسپورٹ ٹیکس کو ایسے رکھنا ہے کہ ملک میں بیچنے کی نسبت باہر بیچنا زیادہ بہتر لگے ۔ موجودہ ٹیکس پالیسی اس کے بر عکس ہے ۔ کارخانے والی کمپنی پر اس سال انکم ٹیکس کی شرح 39 فی صد بھی ہے اور رئیل اسٹیٹ میں آمدن پر چار سال کے اندر اندر بیچنے پر کچھ ایک سے دو فیصد کا ٹیکس اور چار سال کے بعد ایک ارب کی آمدن پر بھی صفر ٹیکس ۔ ڈالر اور گاڑی کے آن منی کمانے والوں کا دستاویزی ثبوت ندارد سو،وہاں بھی ٹیکس صفر۔ ایف بی آر والے،بینکوں سے لوگوں کی ٹرانزیکشنز کا ڈیٹا مانگیں تو،بینکوں کے بزنس،ڈوبنے کا خطرہ ۔ خریداری اور فروخت،پر،بیچنے اور،خریدنے،والے،پر،شناختی کارڈ کے اندراج کی شرط لگائیں تو تاجر سڑکوں پر۔
درآمدات کی طرف آئیں تو سمگلنگ اور غلط انوائس کو روکنے کے لئے پورٹ پر،لگانے کے لئے سکینرز کے لئے رقم نہیں ۔
دوسری طرف بنیادی خوراک ، کھاد، برآمدات کے لئے خام مال کے علاوہ تمام امپورٹ کو دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے ۔وقت آ چکا کہ ایندھن کی امپورٹ کو کم کیا جائے ۔ اس کمی کی صورت بھی بین الاقوامی معاہدوں کی وجہ سے پابندی لگانے کی بجائے ٹیکسوں کے ذریعے قیمت زیادہ کرنے سے ممکن ہے ۔ سیلز ٹیکس اس ضمن میں راشننگ سے زیادہ موثر ہو سکتا ہے ۔
الیکٹرانک اشیا ، گاڑیاں ، فون ، کمپیوٹر، ہسپتالوں کے آٹومیٹڈ بیڈ ، ٹائلز ۔ اور مکانات کی تعمیر میں استعمال ہونے والی ہزاروں اشیا ہیں جو یا تو finished form میں امپورٹ ہوتی ہیں یا قریب بنی بنائی امپورٹ ہوتی ہیں ۔ ان پر زیادہ ٹیکس لگا کر ان کی خرید کو حتی الوسع پہنچ سے باہر بنانا بھی شاید ہماری پالیسی کا حصہ ہونا چاہئے ۔
مشکل کے یہ کچھ سال جیسے گزریں گے اس کی ایک ممکنہ جھلک کچھ ایسے خدوخال والی ہوگی ۔
1۔ اگلے دوسال نئی گاڑی ، نیا ائر کنڈیشنر ، نیا ٹی وی ، فون اور دیگر اشیا قوت خرید سے باہر ہو جائیں اور لوگ اپنے طرز زندگی کو ایک درجہ نچلے لیول پر لے آئیں ۔
2۔ پٹرول مہنگا ہونے سے کار کا کم استعمال یا کار پولنگ ۔
3۔ رئیل اسٹیٹ میں مقامی انویسٹمنت میں خاطر خواہ کمی
4۔ ایکسچینج ریٹ کا دوسو پچاس روپے تک کا ایڈجسٹمنٹ
5 ۔ برآمدات کا تین سال میں 50 ارب ڈالر کا ہدف،
ان باتوں پر بہت سے اعتراضات ممکن ہیں اور وہ اعتراضات اتنے بے جا بھی نہیں ہونگے مگر اگر سیاسی اتفاق رائے ممکن ہو تو کچھ عرصہ نسبتا" غیر ضروری امپورٹ پر confiscatory taxation اور ایکسپورٹ کو سب سے زیادہ منافع والا کاروبار بنانے کے لئے دوسرے تمام تر اور خاص کر،زمین ، جائیداد کی آمدن پر مناسب ٹیکس اور آمدن کے ٹرانزیکشن ریکارڈ تک ایف بی آر،کی موثر رسائی ہی نجات کا واحد ممکن راستہ ہے ۔ اس راستے میں تنگی ہے مگر اس کے آخر میں سر اٹھا کر جینے کا امکان ہے جو موجودہ ڈگر پر رہتے،ہوئے ممکن نہیں۔ یہ مکمل حل نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بہت،سے اور سٹرکچرل ریفارم درکار ہیں مگر کئی ملکوں نے اسی طرح کی کٹھن راہ سے گزر کر اپنی بقا کی جنگ لڑی ہے اور سرفراز ہوئے ہیں ۔ بنگلہ دیش اور ویت نام کی مثال سامنے ہے ۔ اگر کچھ نہیں کرنا تو یہی زندہ باد اور مردہ باد کہتے حکومتیں بدلتے جائیے ۔ ایک مایوس کرے تو،دوسرے سے امید لگائیے،اور،پھر یہی مشق بار بار دوہرائیے ۔
معیشت پر سیاست
معیشت اور سیاست آپس میں conjoined twins کی طرح جڑے ہیں ۔ دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کے منشور اور نعرے معاشی وعدوں اور خوابوں کے اردگرد گھومتے ہیں ۔ مہنگائی ، بے روزگاری اور غربت سے نجات کی نویدیں ، ترقی اور خوشحالی کی بشارت اور پھر اس سے منسلک قومی عظمت کے حصول کا مژدہ۔
ان خوابوں کے ساتھ انسانی جبلت کے دوسرے رخ یعنی خوف کو بھی بیچا جاتا ہے کہ اگر دوسرے آگئے تو یہی خواب nightmare میں بھی بدل سکتے ہیں ۔
امریکہ سے لے کر پاکستان تک حکومت بنانے اور بگاڑنے میں زیادہ تر یہی سب کچھ کارفرما نظر آتا ہے ۔ ایک لحاظ سے سیاست میں معیشت کی بحث نکال دیں تو ایک دوسرے کی ذاتی کردار کشی ، ملکی سلامتی اور مذہبی اور سماجی اقدار کی حفاظت وغیرہ کے علاوہ شاید ہی کچھ بجتا ہے۔ ایسے میں سیاستدانوں کو اس بات پر قائل کرنا کہ وہ معیشت پر سیاست نہ کریں ایک بظاہر ناممکن کام ہے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اقوام کی زندگی میں کبھی کبھی ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب business as usual کی چوائس وقتی طور پر دستیاب نہیں رہتی ۔ دوسری جنگ عظیم میں یورپ کے کئی ممالک پر یہ وقت آیا کہ ملکی سالمیت کے پیش نظر کئی سیاسی norms کو وقتی طور پر موقوف کیا گیا۔ چین اور روس وغیرہ میں تو انتظامی اور سیاسی امور پر کج بحثی کی گنجائش ہی نہیں رکھی گئی کہ ملکی سلامتی اور معیشت پر polarisation ان کی منطق میں ملک کے لئے مفید نہیں ۔
اس بات سے انکار نہیں کہ طویل مدت میں سیاست ہی معیشت کا بہترین رخ متعین کر سکتی ہے مگر بسا اوقات معاشی معاملات پر حد درجہ بڑھی ہوئی مخاصمت دراصل معیشت اور ملک کو برباد کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ، خاص کر پاکستان جیسی کمزور معیشت جس کی day to day existence کا انحصار بین الاقوامی قرضوں سے جڑا ہو۔
پاکستان کے حالات کا گزشتہ پندرہ سال کا تجزیہ اس بات کی طرف واضح اشارے دیتا ہے کہ درست معاشی اقدامات پر اپوزیشن اور،عوامی دباو کا خوف اور عوام میں پذیرائی کی خواہش کے لئے کئے گئے غلط معاشی اقدامات، آج ہمیں اس نہج پر لے آئے ہیں کہ ہر تیسرے مہینے نادہند ہونے کا خوف ہمیں در در کا بھکاری بنا رہا ہے ۔
ہمیں افغان جنگ کا مال غنیمت ملنا کوئی 2007 کے شروع میں بہت کم رہ گیا تھا ۔ 2008 سے 2013 کے دوران آئی ایم ایف کے ریفارمڈ سیلز ٹیکس کے نظام کی شدید سیاسی مخالفت ہوئی ۔ امپورٹڈ مہنگائی ( تیل ، اجناس) پر حکومت کے لتے لئے گئے ۔ شرح سود بڑھانے پر نالائقی کے طعنے دئے گئے ۔ نتیجتا" اس حکومت نے بھی اندرونی اور بیرونی قرضے لئے ، گردشی قرضے کا سدباب کیے بغیر لوگوں کو سستی بجلی دیتے رہے ۔ ایم این اے اور ایم پی اے خوش رکھنے کے لئے ترقیاتی بجٹ بھی جا اور بے جا خرچ ہوا۔ دوسری طرف پنجاب میں لوگوں میں مقبولیت کے لئے بچت کی بجائے خرچ کو ترجیح ملی۔
2013 سے 2018 میں پی ٹی آئی نے وہی کچھ کیا جو پہلے پی ایم ایل این کر رہی تھی ۔ اس عوامی دباو کے نتیجے میں اس وقت کی حکومت بھی دیرپا درست اقدامات کی بجائے سستے تیل اور بجلی کے چکر میں پڑی رہی ۔ عوام کو کچھ کر دکھانے کے چکر میں قرض سے بجلی کی صلاحیت بھی لگا لی اور سڑکیں بھی بنادیں ۔ دنیا میں جب تیل کی قیمت 40 ڈالر فی بیرل کی کم ترین سطح پر تھی تو بھی اپوزیشن پاکستانی 65 روپے لٹر پٹرول کے خلاف احتجاج کر رہی تھی ۔
2018 سے آج تک بھی وہی سلسلہ جاری ہے ۔ پچھلے سال اپوزیشن کے دباو میں گزشتہ حکومت میں 650 ارب روپیہ کی پٹرولیم سبسڈی دے دی ۔ گردشی قرضہ بڑھ کر 2500 ارب کو چھونے لگا مگر مشکل اور دور رس،فیصلوں کو آنے والے کل پر ڈالتے رہے ۔ یہی حال موجودہ حکومت کا ہوا ہے کہ درست فیصلے کریں تو ووٹ اور حکومت دونوں سے ہاتھ دھونے پڑیں گے ۔
معلوم نہیں یہ کیسے ہوگا مگر عوام کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئیے کہ ہم معاشی گراوٹ کی جس منزل پر پہنچ چکے ہیں وہاں سے واپسی دس سے پندرہ سال کے درست سمت میں کئے گئے زیادہ تر نامقبول معاشی اقدامات سے ہی ممکن ہے ۔ ان پندرہ سالوں میں گزشتہ پندرہ سالوں کی طرح تینوں بڑی قومی جماعتوں کو حکومت ملنے کا امکان ہو سکتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ تینوں جماعتیں 2008 سے 2022 کا ماضی دوہرانا چاہیں گی یا ملکی سالمیت اور خوشحالی کیلئے درست مگر تلخ پندرہ سالہ معاشی پروگرام پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں گی ۔
موجودہ حالات میں ایسا اتفاق رائے ناممکن دکھتا ہے مگر ڈر ہے کہ اگر ایسے اتفاق رائے میں ایک سال کی بھی دیر ہوئی تو یہ معاملات شاید کسی کے بس،میں بھی نہ رہیں ۔
تینوں قومی پارٹیوں کی معاشی ٹیمیں یہ بات بخوبی جانتی ہیں کہ اس ملک کو اپنی بقا کے لئے کیا کیا اقدامات کرنے ہیں مگر ہمارا تین سے پانچ سال کا سیاسی نظم اور ایک حکومتی مدت کے بعد دوسری مسلسل مدت حاصل کرنے کی خواہش ہمیں طویل المدتی درست اقدامات سے باز رکھتا ہے ۔
درست ہے کہ جمہوری دنیا میں زیادہ تر یہی تین سے پانچ سالہ مدت رائج ہے اور اکثر اوقات یہ بندوبست اچھی معیشت سے متصادم نہیں ہوتا مگر ماضی کے پچاس سال کے غلط معاشی فیصلوں اورسیاسی جماعتوں کے ہاں الیکشن جیتنے سے بڑھ کر سیاسی حریف جماعت کو فنا کرنے کی خواہش اس پولرائزیشن پر منتج ہوئی ہے کہ کسی بھی حکومت کے لئے ہر لازمی مگر مشکل معاشی فیصلہ کرنا ناممکن ہو گیا ہے اور ہم جان ناش کے lose-lose equilibrium کے ڈبے،میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں ۔
اب جب کہ تینوں قومی جماعتوں کے معاشی قائدین اس راہ سے گزر کر اس کی مشکلات سے مکمل طور پر آگاہ ہو چکے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ ان کی انتہائی اخلاص سے بنائی ہوئی پالیسیاں اور ارادے کس طرح سے سیاسی مصلحت کوشی کی وجہ سے الماریوں میں دھرے ہیں ، تو ضرورت اس بات کی ہے کہ مستقبل کے کسی سیاسی
بندوبست میں جانے سے قبل ایک minimum مگر لازمی معاشی روڈ میپ پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے ۔اور اس باہمی اتفاق رائے میں ان قومی سلامتی سے جڑے معاشی معاملات کو ایک طرح سے depoliticize کر دیا جائے تاکہ آئندہ پندرہ برس میں ہم relative معاشی استحکام تک پہنچ سکیں ۔ اس سلسلے میں حکومت اور اپوزیشن کے مل کر فیصلے کرنے کا ادارہ جاتی بندوبست بھی بنایا جا سکتا ہے ۔
ان معاملات میں سر فہرست کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو کم کرنے کے اقدامات کو غیر سیاسی بنانا ہے۔ یاد رہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ کی تشکیل میں درآمدات ، برآمدات ، بیرونی سرمایہ کاری ، ایکسچینج ریٹ ، بین الاقوامی قرضے، تارکین وطن کی ترسیلات زر اور آئی ایم ایف وغیرہ سے ہمارے معاہدے شامل ہیں ۔ ماضی میں رکوڈک ، سینڈک ، پرائیویٹائزیشن پر سیاست نے ہمیں بے پناہ مالی نقصان پہنچایا ہے ۔ تارکین وطن کے پیسے بھیجنے سے روکنے تک کے نعرے بھی ہم سن چکے ہیں ۔ آئی ایم ایف کو ملک بیچنے کا الزام گزشتہ تینوں حکومتوں پر لگا مگر یقین کیجئے کہ یہ تینوں پروگرام زیادہ تر تکنیکی سطح پر ہوئے ہیں اور سیاسی حکومتیں ان پر انتہائی بادل نخواستہ دستخط کرتی ہیں ۔کوئی پارٹی بھی اتنی غیر محب وطن نہیں ہوتی کہ ملک کو برضا اور بخوشی گروی رکھ دے ۔ یہ پروگرام در اصل ہمیں درست وقت پر صحیح فیصلے نہ کرنے پر برسوں کی کاہلی کا بوجھ تین سال کی مختصر مدت پر ڈالتے ہیں ۔
اسی طرح سے ہمارا بجٹ کا خسارہ ایک اور مصیبت ہے ۔انکم ٹیکس کا دائرہ کار بڑھائیں یا اس کے نفاذ پر سختی کریں تو کاروباری اور صنعتکار ناراض اور ہڑتال پر ۔ سیلزٹیکس وصول کریں تو مہنگائی کا شور ۔ دوسری طرف پی آئی اے،، سٹیل مل اور ریلوے بند کریں تو ملازمین سڑک پر. سرکار کا ترقیاتی بجٹ کم کریں تو اسمبلیوں کے نمائندے ناراض ۔ سرکار مدار کے خرچے کم کریں تو شور۔ بجلی ، گیس قیمت خرید پر بھی بیچیں تو سیاسی طوفان (جبکہ گردشی قرض کی ادائیگی کے،لئے اس قیمت پر پریمیم کی ضرورت ہے) ۔ ہر سکول کو کالج اور یر کالج کو یونیورسٹی بنانے کا شوق ۔ یورپ جیسے،ہسپتال بنانے کی آرزو. اور ان چیزوں کو روکیں تو ووٹ کیونکر ملیں ۔
جس راہ پہ ہم سہج سہج رواں ہیں وہ ہلاکت ایک گہری کھائی کو جاتی ہے اور اس سے بچنے کا واحد راستہ ایک مہم جویانہ Rock climbing سے گزرتا ہے ۔ اہل خرد اور اہل حکم کو یہ سوچنا ہے کہ کدھر کو جانا ہے ۔
(جاری ہے )